Sunday, December 3, 2017

مفہوم محبت

مفہوم محبت:

شام کا وقت تھا اور نیا شادی شدہ جوڑا ، ٹیرس میں بیٹھے، کافی پیتے، باہر ہوتی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہا تھا. آخر کار شوہر نے بیوی کی ضد کے آگے ہار مانتے ہوے اپنے اندر کا حال بتانا شروع کیا....

پتا ہے کیا ، دراصل گزری زندگی میں مجھے بہت لگاؤ ہوے ، مختلف لڑکیوں سے اور پھر ہر کسی سے ایک ہی طرح کی باتیں کیں ہمیشہ.... ہر لڑکی کو بہت سراہا ، اسکا پہننا ، سجنا ، سنوارنا ، ہسنا ، چلنا ، اٹھنا، بیٹھنا مطلب کہ ہر ہر بات و ادا کی تعریف کی...کبھی کسی سے دل لگا تو کبھی کوئی دل سے اتر گئی ...ایسا ہی چلتا رہا بس .....اور اب تم میری زندگی میں گھر والوں کی پسند سے میری بیوی بن کر آئی.....

یہ تم کہتی ہو نا کہ میں خاموش کیوں رہتا....میں باتیں کیوں نہیں کرتا تم سے....تو جاناں، باتیں تو بہت ہیں مگر اب بے حس و بے اثر لگتی مجھے، تبھی نہیں کر پاتا تم سے ...تمہاری خوبصورتی ، باتیں ، سجنا و سنوارنا مرے دل میں کوئی کفیت نہیں جگاتا....کہ یہ سب اب مرے لئے معنی نہیں رکھتا....میں پہلے بہت لڑکیوں سے سچی و جھوٹی اتنی باتیں اور تعریفیں کر چکا کہ میں اندر سے مکمل خالی ہو چکا.....

اور یہی بات پچھتاوا ہے میرے لئے اب... کاش میں ایسا نہ ہوتا...میرا کسی سے کوئی تعلق نہ ہوتا....میں اپنی باتیں، جذبات و احساسات پہلے سے ضایع نہ کرتا.... میں یوں آج جذبات سے عاری ہو کر، بہت تکلیف میں اس طرح تم سے مخاطب نہ ہوتا....میں یوں چپ نہ ہوتا.....کاش اللہ مجھے معاف کر دے! کاش مجھے سکوں آ جائے...!

آج لڑکی نے آخر شادی کے کچھ ہفتوں بعد ہی اپنے شوہر کی اداسی اور اندر کا حال جان ہی لیا تھا.....یہ سب باتیں بہت تکلیف دے رہی تھی اسے...اسکے آنسوں جم سے گۓ تھے آنکھوں میں ....ہاتھ میں کافی کا مگ پکڑے ، باہر دیکھتے اسے لگا جیسے لان میں ہوتی ہلکی بارش کے ننھے ننھے قطرے اسکے آنسوں کا ہی کام دے رہے ہوں.....

اسکا شوہر، اسکے ساتھ بیٹھے ہوے وہ سب بتا رہا تھا جس سے اسکے دل میں ہلچل سی مچ گئی تھی ....مگر پھر بھی وہ اٹھی ، کافی کا مگ سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور ساتھ بیٹھے شوہر کے پاس جا کر نیچے ہی بیٹھ گئی. پھر اس نے اپنا سر اسکے گھٹنوں میں رکھا اور اوپر نظریں کر کے، شوہر کی جھکی نگاہوں کو دیکھتے ہوے بولی ....

قسم سے ،آپ کی باتوں سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے ، اتنی زیادہ کہ رو بھی نہیں پا رہی مگر آپ نے سچ بولا وہ بھی میرے بار بار کی ضد کرنے پر تو اچھا لگا، آپکو پچھتاوا ہے، معافی مانگتے ہیں تو رب ضرور معاف کرے گا آپکو...اور... آپ نے کہا نا کہ آپ اندر سے خالی ہو، تو یقین جانیں مجھے اچھا لگا جان کر...کہ میں بھروں گی اب اس میں اپنی محبت.....

جو کچھ آپ نے کیا، میں تو ویسا، کچھ نہیں کیا نا...تو میرے پاس بہت محبت ہے، اور وہ بھی خالص.... میری باتیں ، میرے جذبات و احساسات اور میرا تعریف کرنا تو سب نیا ہے نا...آپ میرا آئینہ ہو ، شادی کے بعد اب آپ میرے ہم لباس ہو، میں جو آپکو دوں گی اس میں مجھے اپنا عکس نظر آتا رہے گا....

میری تعریف و باتیں آپکی ہی تو ہوں گی.... اور پھر یہ کہتے اسکے ساتھ ہی رکے ہوے آنسو، بڑی بے پرواہی سے چھلک ہی پڑے...اور وہ بلک بلک کر رونا شروع ہو گئی......

ادھر اسکا شوہر اپنی روتی بیوی کے سر پر ہاتھ پھیرے یہی سوچ رہا تھا کہ کہاں پوری زندگی فلرٹ نما دوستیوں کے چکر میں، جس محبت کو وہ کبھی سمجھ نہیں پایا تھا، اس کا مفہوم ابھی اسکی بیوی نے کیسے صرف چند الفاظ میں ہی سمجھا دیا تھا.....

تب اچانک اسکی اپنی آنکھوں سے بےشمار بہتے آنسوں نے، گھٹنوں میں سر رکھی بیوی کے گالوں پر گر کر اسے تھپتپانا شروع کر دیا......

باہر ہوتی ہلکی بارش بھی رک چکی تھی مگر ٹیرس میں موجود اب آنکھوں کے آسمان سے برسات ہو رہی تھی...

سب کچھ صاف شفاف کر دینے کو، کہ جسکے بعد اندر کے موسم میں بھی باہر کی طرح خوبصورت نکھار آ جانا تھا .

بیٹیاں

شادی کی پہلی رات میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ جب وہ کمرے میں پہنچ جائیں گے تو پھر دروازہ نہیں کھولیں گے چاہے کوئی بھی آ جائے.
ابھی دروازہ بند ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ دلہے کے والدین کمرے کے باہر پہنچے تاکہ اپنے بیٹے اور بہو کو نیک تمناؤں اور راحت بھری زندگی کی دعا دے سکیں، دستک ہوئی بتایا گیا کہ دلہے کے والدین باہر موجود ہیں.
دلہا دلہن نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا باوجود اس کے کہ دلہا دروازہ کھولنا چاہتا تھا اس نے اپنے فیصلے کو مدنظر رکھا اور دروازہ نہیں کھولا.
والدین ناکام واپس لوٹ گئے.
ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ دلہن کے والدین بھی دلہے کے گھر جا پہنچے تاکہ اپنی بیٹی اور داماد کو اپنی نیک خواہشات پہنچا سکیں اور انہیں سکھی زندگی کی دعا دے سکیں.
ایک بار پھر کمرے کے دروازے پر دستک دی گئی اور بتایا گیا کہ دلہن کے والدین کمرے کے باہر موجود ہیں. دلہا دلہن نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر اپنا فیصلہ ذہن میں تازہ کیا.
باوجود اس کے کہ فیصلہ ہو چکا تھا دلہن کی آنسوؤں بھری سرگوشی سنائی دی
نہیں میں اپنے والدین کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی اور فورا دروازہ کھول دیا.
شوہر نے یہ سب دیکھا مگر دلہن کو کچھ نا کہا خاموش رہا.
اس بات کو برسوں بیت گئے ان کے ہاں چار بیٹے پیدا ہوئے اور پانچویں بار ایک بیٹی پیدا ہوئی.
شوہر نے ننھی گڑیا کے اس دنیا میں آنے کی خوشی میں ایک بہت بڑی پارٹی کا انتظام کیا اور اس پارٹی میں ہر اس شخص کو بلایا جسے وہ جانتا تھا اور خوب خوشیاں منائی گئیں.
اس رات بیوی نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ نے اتنی بڑی پارٹی کا اہتمام کیا جبکہ اس سے پہلے چاروں بچوں کی پیدائش پر ہم نے یہ سب کچھ نہیں کیا.
شوہر مسکرایا اور بولا۔۔۔۔
یہ وہ ہے جو میرے لئے دروازہ کھولے گی.
بیٹیاں ہمیشہ قیمتی ہوتی ہیں
(تحریر فیصل)

خواتین کے لئے ایک اہم نصیحت

#خواتین کے لئے ایک اہم #نصیحت 👇

ایک روز شوہر نے پرسکون ماحول میں اپنی بیوی سے کہا : بہت دن گزر گئے ہیں میں نے اپنے گھر والوں بہن بھائیوں اور ان کے بچوں سے ملاقات نہیں کی ہے۔ میں ان سب کو گھر پر جمع ہونے کی دعوت دے رہا ہوں اس لیے براہ مہربانی تم کل دوپہر اچھا سا کھانا تیار کر لینا۔
بیوی نے گول مول انداز سے کہا : ان شاء اللہ خیر کا معاملہ ہو گا۔
شوہر بولا : تو پھر میں اپنے گھر والوں کو دعوت دے دوں گا۔
اگلی صبح شوہر اپنے کام پر چلا گیا اور دوپہر ایک بجے گهر واپس آیا۔ اس نے بیوی سے پوچھا :
کیا تم نے کھانا تیار کر لیا ؟ میرے گھر والے ایک گھنٹے بعد آ جائیں گے !
بیوی نے کہا : نہیں میں نے ابھی نہیں پکایا کیوں کہ تمہارے گھر والے کوئی انجان لوگ تو ہیں نہیں لہذا جو کچھ گھر میں موجود ہے وہ ہی کھا لیں گے۔
شوہر بولا : اللہ تم کو ہدایت دے ... تم نے مجھے کل ہی کیوں نہ بتایا کہ کھانا نہیں تیار کرو گی ، وہ لوگ ایک گھنٹے بعد پہنچ جائیں گے پھر میں کیا کروں گا۔
بیوی نے کہا : ان کو فون کر کے معذرت کر لو ۔۔۔ اس میں ایسی کیا بات ہے وہ لوگ کوئی غیر تو نہیں آخر تمہارے گھر والے ہی تو ہیں۔
شوہر ناراض ہو کر غصے میں گھر سے نکل گیا۔
کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ بیوی نے دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کے اپنے گھر والے ، بہن بھائی اور ان کے بچے گھر میں داخل ہو رہے ہیں !
بیوی کے باپ نے پوچھا : تمہار شوہر کہاں ہے ؟
وہ بولی : کچھ دیر پہلے ہی باہر نکلے ہیں۔
باپ نے بیٹی سے کہا : تمہارے شوہر نے گزشتہ روز فون پر ہمیں آج دوپہر کے کھانے کی دعوت دی ۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ دعوت دے کر خود گھر سے چلا جائے !
یہ بات سُن کر بیوی پر تو گویا بجلی گر گئی۔ اس نے پریشانی کے عالم میں ہاتھ ملنے شروع کر دیے کیوں کہ گھر میں موجود کھانا اس کے اپنے گھر والوں کے لیے کسی طور لائق نہ تھا البتہ یقینا اس کے شوہر کے گھر والوں کے لائق تھا۔
اس نے اپنے شوہر کو فون کیا اور پوچھا : تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ دوپہر کے کھانے پر میرے گھر والوں کو دعوت دی ہے۔
شوہر بولا : میرے گھر والے ہوں یا تمہارے گھر والے ۔۔۔ فرق کیا پڑتا ہے۔
بیوی نے کہا : میں منت کر رہی ہوں کہ باہر سے کھانے کے لیے کوئی تیار چیز لے کر آجاؤ ، گھر میں کچھ نہیں ہے۔
شوہر بولا : میں اس وقت گھر سے کافی دُور ہوں اور ویسے بھی یہ تمہارے گھر والے ہی تو ہیں کوئی غیر یا انجان تو نہیں۔ ان کو گھر میں موجود کھانا ہی کھلا دو جیسا کہ تم میرے گھر والوں کو کھلانا چاہتی تھیں.. "تا کہ یہ تمہارے لیے ایک سبق بن جائے جس کے ذریعے تم میرے گھر والوں کا احترام سیکھ لو" !.

ویسے تو معزرت کے ساتھ  بہت سی خواتیں زیادہ تر مردوں کی ناانصافی کا راگ الپتی رہتی  لیکن کیا کبھی غور فرمایا کہ کہیں نا کہیں آپ بھی وہ حدیں عبورں کر جاتی۔ جسکی وجہ سے مرد حضرات اپنی حدرود پار کر جاتے کیوں کہ وہ بھی انسان ہی ہیں اور غلطیاں انسانوں سے ہی سرزرد ہوتی کیکن اش کا مطلب یہ نہیں کہ سارے کا سارا ملبہ مرد پر ڈال دیا جاے

(لوگوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرو جیسا تم خود ان کی طرف سے اپنے ساتھ معاملہ پسند کرتے ہو

ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺳﭽﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ , ﻭﮨﺎﮞ ﻗﻨﺎﻋﺖ, ﺭﺍﺣﺖ ﺍﻭﺭ ﻭﺳﻌﺖ ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ۔۔۔ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﯾﮧ ﯾﻘﯿﻦ ﻣﺤﮑﻢ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ " ﺁﭖ ﮐﯽ ﺁﮒ " ﻣﯿﮟ ﺳُﻠﮕﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ , ﺩﮨﺮﺍ ﻭﺯﻥ ﺁﺩﮬﺎ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔۔۔
·
مرد ظالم ہوتا ہے __
مرد حاکم ہوتا ہے____
مرد خود کو عورت کا خدا سمجھتا ہے___
ایسے کتنے ہی جملے ____
ہم کتنی آسانی سے کہہ دیتے ہیں مگر کبھی سوچا ہے کسی نے کہ مرد کتنی محنت و مشقت کرتا ہے اپنی عورت کا سائبان بننے کےلیے ___؟؟؟
اسے معاشرے کی ___
سرد گرم سے بچاتا ہے اپنا آپ مارتا ہے___ پیسے کماتا ہے اور اسی پیسے سے اپنی گھر کی عورت کےلیے  ہر سہولت خریدتا ہے___
قدر کریں اس کی جس کی وجہ سے آپ گھر کی محفوظ چھت تلے بیٹھی پر آسائش زندگی گزار رہی ہیں_____

Saturday, December 2, 2017

قومیں

قومیں.....
ایک دفعہ ابن انشاءٹوکیو کی ایک یونیورسٹی میں مقامی استاد سے محو گفتگو تھے‘ جب گفتگو اپنے اختتام پر پہنچی تو وہ استاد ابن انشاءکو الوداع کرتے ہوئے یونیورسٹی کے باہری صحن تک چل پڑا‘ ابھی یونیورسٹی کی حدود میں ہی تھے کہ دونوں باتیں کرتے کرتے ایک مقام پر کھڑے ہو گئے‘ اس دوران ابن انشاءنے محسوس کیا کہ پیچھے سے گزرنے والے طلباءاچھل اچھل کر گزر رہے ہیں‘ باتیں ختم ہوئیں تو ابن انشاءاجازت لینے سے پہلے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ محترم ہمارے پیچھے سے گزرنے والا ہر طالب علم اچھل اچھل کر کیوں گزر رہا ہے‘کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟ٹوکیو یونیورسٹی کے استاد نے بآواز بلند قہقہہ لگایا اور ابن انشاءکو بتایا کہ سورج کی روشنی سے ہمارا سایہ ہمارے پیچھے پڑ رہا ہے اوریہاں سے گزرنے والا ہر طالب علم نہیں چاہتا کہ اس کے پاﺅں اس کے استاد کے سایہ پر پڑیں‘ اس لئے ہمارے عقب سے گزرنے والا ہر طالب علم اچھل اچھل کر گزر رہا ہے‘ یہ قوم کیوں نہ ترقی کرے‘ ہمارے معاشرے میں تو استاد کا احترام اس کے گریڈ اورعہدے سے منسلک ہے۔

پاک فوج pakistani force

*پاک فوج بھی عجیب فوج ہے*

انکی گاڑیاں ٹائم پر سٹارٹ ہو جاتی ہیں ، پٹرول ختم نہیں ہوتا ،بندوقیں ہر وقت ریڈی ہوتی ہیں ، کرینیں ہر وقت کارآمد ، دن ہو رات ہو ، عید ہو بقرعید ہو ،بارش ہو ،طوفان ، سردی ہو یا گرمی جب پکارو ادھر حاضر
*کبھی نہیں کہا*
ہمیں رٹن آرڈر نہیں ملے ، کسی نے بتایا نہیں ، چیف صاحب سو رہے تھے ،کور کمانڈر سیر کیلئے گئے ہیں واپس آئیں گے تو فیصلہ ہو گا پہلے ہمیں بارش سے نپٹنے کیلئے ضروری سامان دو ، تب کام شروع ہو
*کوئی حیلے بہانے نہی*
زلزلہ ہو تو سارا سامان موجود ،آگ لگ جائے تو سارا سامان اور فنڈز موجود
سیلاب آ جائے تو سارا سامان اور فنڈ ز موجود
*کبھی کوئی شکایت نہیں کی*

اور عجیب اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سارے کام وار زون میں کرنے پڑتے ہیں ،

بندوقیں اور اسلحہ ساتھ رکھنا پڑتا ہے بلٹ پروف جیکٹ پہن کر ریسکیو کا کام کرنا پڑتا ہے ،کہ کہیں کوئی ہم وطن قریب آ کر پھٹ ہی نہ جائے

*بیک وقت جنگ بھی اور مدد بھی ریسکیو بھی*

ایسی فوج کہیں نہ سنی ھے نہ پڑھی ھے نہ دیکھی ھے

فوجیں امن کی ضامن ہوتی ہیں صومالیہ دیکھو عراق دیکھو  شام دیکھو برما دیکھو  یمن دیکھو  افغانستان دیکھو

*یہ فوج نہیں یہ اللہ کی نعمت ھے ، یہ اللہ کا احسان ھے*

باقی ملکی ادارے دیکھو پتا بھی ھے ہر سال سیلاب آتا ہے پھر بھی کوئی تیاری نہیں ہوتی 

جب سیلاب کا پانی ہر جگہ گھس جاتا ہے تو یا حزب مدد ،یا فوج مدد
پتا جو ہے کہ فوج نے آ ہی جانا ہے
یقینا فوج ملک کی ہے ،لیکن ان کاموں کیلئے نہیں جو تم اس سے لیتے ہو 😡

*اللہ میرے وطن اور میری فوج کو سلامت رکھے آمین. جن لوگوں کو پاک فوج کی تنخواہوں پر مسلسل تکلیف رہتی ہیں ان کے لیے ایک ہلکا پھلکا سا موازنہ ۔۔۔۔ !

دنیا کے چند اہم ممالک کا فوج پر فی کس خرچہ  ۔۔۔۔

امریکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 409،596  ڈالر
برطانیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔314،105 ڈالر
سعودی عرب ۔۔۔۔ 272،805 ڈالر
فرانس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 250،675 ڈالر
اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔100،849 ڈالر
چین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 92،456  ڈالر
روس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 81،893 ڈالر
افغانستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 59،487 ڈالر
انڈیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  42،188 ڈالر
ترکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   36،819 ڈالر
ایران ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    23،518 ڈالر
بنگلہ دیش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔     17،597 ڈالر

اور  پاکستان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 13،513 ڈالر

پاک فوج دنیا میں کم ترین پیسے لینے والی فوج ہے!

لیکن اپنے ان محدود سے وسائل میں امریکہ، روس، انڈیا اور اسرائیل جیسی طاقتوں سے ٹکر لے رکھی ہے.

دنیا کا جدید ترین نیوکلئیر میزائل پروگرام، لڑاکا طیارے، جدید ترین ٹینک اور ڈرون طیارے بنانے میں کامیاب رہی۔

دنیا کی سب سے بڑی پراکسی جنگ بھی لڑ رہی ہے۔

لیکن جب ان بدبختوں سے کہا جائے کہ پاک فوج کا جوان شہید ہوا ہے تو نہایت بے رحمی سے جواب دیتے ہیں ۔۔۔   " تنخواہ کس بات کی لے رہے ہیں" ۔۔۔۔۔

اللہ نے دنیا کی بہترین فوج عطا کی ہے۔ اس کی قدر جانیں۔

Friday, December 1, 2017

ختم نبوت

کل رات شاپ بند کرتے وقت میری کسٹمر کی کال آئی کیا میرا ڈریس تیار ہے میں نے کہا جی بلکل تیار ہے آپ صبح فرسٹ ٹائم آکر لیجانا
تو اسنے کہا کہ میری مجبوری ہے آپ ایسا کریں یہ ڈریس مجھے پہنچادیں میں آپکو 1000 روپے اکسٹرا دونگی پہنچانے کے
انھوں نے اپنے گھر کا ایڈریس سینڈ کیا جو قریب ماڈل ٹاؤن میں واقع تھا
خیر میں نے جب بائیک نکالی تو باہرتو ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی تو میرا پروگرام کینسل ہو گیا میں نے انہیں کال کی کہ میں نہیں آسکتا باہر ٹھنڈ ذیادہ ہے
خیر میرا گھر میری شاپ کے قریب ہی ہے جب گھر پہنچا تو حسبے معمول میں نے ہیٹر اون کیا اور کمرے کا ٹمپریچر 25 ڈگری پہ کیا اور میری عادت ہے کہ سونے سے پہلے میں Facebookپہ اپنے دوستوں کی وال چک کرتا ہوں
کہ آج کس کس نے کیا کیا پوسٹ کیا ہے اچانک اس تصویر پہ نظر پڑی میں نے سوچا یار دفع کرو یہ تو ہےہی لالچی
پھر میرے ذہن میں آیا یار مجھے بھی کچھ دیر پہلے 1000 روپے کی لالچ دی گئی لیکن میں کیوں نہیں گیا ?
۔اتنے میں ایک میسیج پہ نظر پڑی کہ یار نجیب خادم حسین کی زبان چک کر ،،میرے ذہن میں اپنے والد کی باتیں یاد آئی کہ پتر تلخ لہجہ والے اکثر سچے ہوتے ہیں میٹھے لہجے والے زیادہ تر منافق ہوتے ہیں ، ،،محبوب سے دور نزدیکی کی بھی کوئی بات نہیں ہوتی کوئی دور رہ کر بھی اویس قرنی ہوجاتا ہے اور کوئی پاس رہ کر بھی ابوجہل رہتا ہے
میری نید اڑگئی کافی دیر سوچتا رہا کہ کیا میرا ایمان مکمل ہے کیونکہ میں نے اپنے بیٹے کو اپنے سینے سے لگایا ہوا تھا جبکہ حضورﷺ کا فرمان عالی ہے کہ تب تک تمہارا ایمان مکمل نہیں ہے جبتک میں ؐ تمہارے مال و جان و اولاد سے زیادہ عزیز نہ ہوجائوں ،،

. ہم مسلکی اختلافات میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ ہمیں یہ بھی نظر نہیں آتا کہ سامنے والا وہابی دیوبند بریلوی سے پہلے ایک مسلمان ہے
.مجھے اپنے آپ شرمندگی محسوس ہوئی کہ وہ معزور بندہ ویل چیئر پہ بیٹھ کر ناموس رسالت کا پہرے دار بن گیا اور ۔میں نے کیا کیا

۔میں بروز محشر حضورﷺ کو کیا منہ دیکھائونگا کہ وہ معذور شخص ختم نبوت ؐ کی خاطر برفانی رات روڈ پہ گزاری وہ بھی کھلے آسمان میں ایک چارپائی پہ اور میں گرم کمرے میں بیٹھ کر بجائے ختم نبوت پہ پہرا دینے کے الٹا تنقید کرتا رہا وہ تو پیروں سے معذور ہونے کے باوجود چوکیدار تھا لیکن میں آنکھیں ہونے باوجود اندھا

.عطاءاللہ شاہ بخاری نے فرمایا تھا کہ اگر ایک انگریز بھی ختم نبوت پہ میرا ساتھ دیگا تو اسکا ساتھ بھی مجھے قبول ہے اور حضورﷺ کے ختم نبوت پہ اپنی عقل کو جواب دےدو کیونکہ یہ عقل کا نہیں عشق کا معاملہ ہے
مہر علی شاہ صاحب نے کہا تھا کہ اگر میں مر بھی جائوں اگر میری ضرورت پڑے تو میری لاش کو ختم نبوت ؐ کی تحریک میں لےجانا
۔اور مفتی محمود رح نے ختم نبوت ؐ پہ پہرا دیا تاکہ ہماری نوجوان نسل فتنے قادیانیت کو پہچانے اور جہنم کی آگ سے بچسکے

.اور نوجوان نسل کا یہ حال ہے
.مجھے اپنے آپ پہ شرمندگی ہوئی میری یہ حالت ہے تو میں اپنے بیٹے کو کیا نصحت دونگا
.شرمندگی سے مجھے رونا آگیا میں اپنا وہی زخم کا نشان دیکھنے لگا جب میں چھوٹا تھا تو ایک دن میں نے اپنی ماں کو حد سے زیادہ تنگ کیا تو میری ماں غصے میں آکر لکڑی ماری تو نوک میری کمر پہ لگی تو تیزی سے خون بہنے لگا تو میری ماں تڑپ اٹھی تھی

میں نے اپنے رب سے کہا یااللہ آپ تو مجھسے ستر مائوں جتنا پیار کرتے ہو میری خطا معاف فرما جواب آیا

‏﷽
اِنَّ اللّـٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْـمٌ°
بے شک اللہ لوگوں پر بڑا مہربان
نہایت رحم والا ہےـ
سورۃ البقرۃ(١٤٣)

بڑا افسر

شوکت صاحب کا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو بیوی نے شوہر سے کہا کہ بچے کو دینی علوم پڑھاتے ہیں میرا شوق ہے بچہ حافظ عالم بنے
شوہر نے بیوی سے کہا کہ حافظ عالم بنا کر اسے بھوکا مارنا ہے
میں اسے بڑا افسر بناؤں گا تا کہ دنیا کا کامیاب انسان بن جائے
شوکت صاحب واپڈا میں اعلی عہدے پر فائز تھے
تعلیم یافتہ اور دنیاوی طور پر کامیاب ترین انسان تھے
بیوی دیندار تھی اور شوق تھا کہ بچے حافظ عالم بنیں
لیکن شوکت صاحب نہ مانے
دوسرا بیٹا پیدا ہوا بیوی نے پھر کہا کہ اس کو تو میرے شوق پر حافظ بنا لو لیکن اس بار بھی بیوی کی نہ مانی گئی
تیسرا بیٹا پیدا ہوا پھر بیوی نے اپنے شوق کا اظہار کیا لیکن مراد پوری نہ ہوئی
چوتھا بیٹا ہوا تو بیوی نے شوہر کی بہت منت سماجت کی کہ تین بچے آپ کی مرضی کی دنیاوی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس بیٹے کو میری مرضی پر حافظ بننے دو
شوکت صاحب نے بیوی کی بلآخر مان کر آخری چھوٹے بیٹے کو مدرسہ میں داخل کروا دیا
خیر وقت کا پیہ گھومتا رہا بڑے تینوں بچے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلی سرکاری عہدوں پر فائز ہوگئے
چھوٹا بیٹا حافظ قاری عالم بن گیا
ایک دن شوکت صاحب نے فخریہ انداز میں بیوی سے کہا بڑے تینوں بچے اعلی سرکاری عہدوں پر لگ گئے اچھا کما رہے ہیں
چھوٹا مولوی بن گیا وہ جہاں بھی جائے گا اس کے پورے مہینے کی تنخواہ بڑے بچوں کی ہفتے کی تنخواہ برابر ہوگی
تم نے اپنی مرضی کروا کر بڑی غلطی کی ہے
اس کا مستقبل تاریک کر دیا
بیوی نے شوہر سے کہا کل چاروں بچوں کا امتحان لیتے ہیں دیکھتے ہیں کون سا بچہ کامیاب اور کون سا ناکام ہے
دوسرے دن شام کو بچوں کے گھر آنے سے کچھ وقت پہلے ماں نے اپنا چہرہ ناخن مار کر زخمی کیا سر کے بال بکھیر کے دپٹہ پھاڑ کر چارپائی پر بیٹھ گئی
باپ اندر کمرے میں چھپ کر بیٹھ گیا
پہلا بڑا بیٹا گھر آیا ماں کو اجڑی ہوئی حالت میں دیکھ کر پوچھا تو ماں نے اس کے باپ کو تین چار گالیاں نکال کر کہا کہ اس نے مارا ہے پھر بدعائیں کرنے لگی
بیٹے نے باپ کو برا بھلا کہا اور تھکاؤٹ کا کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا
دوسرا بیٹا آیا اس نے بھی ماں کو بری حالت میں دیکھ کر وجہ پوچھی
ماں نے روتے ہوئے شوہر کو گالیاں نکال کر بدعائیں کی اور بیٹے کو بتایا کہ تمہارے باپ نے مارا ہے اور پھر بدعائیں کرنے لگی اس نے بھی باپ کو برا بھلا کہا اور اپنے کمرے کو چلا گیا
اسی طرح تیسرے بیٹے کو بھی ماں نے گھڑی ہوئی جھوٹ کی کہانی سنائی تو تیسرا بیٹا جو کہ طبیعت کا تیکھا تھا باپ کو چار گالیاں نکالی بُرا بھلا کہا اور کہا کہ گھر آنے دو بڈھے کو پتہ لگاتا ہوں
باپ سب کچھ سنتا رہا دیکھتا رہا اور خون کے آنسو روتا رہا
اسی اثناء میں چھوٹا بیٹا گھرآیا بیٹے نے ماں کو اس حالت میں دیکھا تو ایک دکھ کا جھٹکا لگا اور بھاگ کر ماں کے پاس آ کر قدموں میں بیٹھ گیا
ماں نے وہی جھوٹی گھڑی ہوئی کہانی سنائی تو بیٹے نے ماں کا ہاتھ پکڑ کر سمجھایا کہ امی جان ابو آپ کا سب کچھ ہے
باپ سے بھی زیادہ حقوق شوہر کے ہیں
اگر میرے ابو نے آپ کو کچھ کہہ دیا تو کیا ہو گیا
امی جان آپ نے ابو کو کچھ کہا ہوگا تو ہی یہ نوبت پیش آئی ہوگی
غلطی تو آپ کی بھی ہوگی امی جان
ابو نے اگر آپ کو کچھ کہہ دیا تو کیا ہو گیا
کچھ بھی نہیں ہوا امی جان دکھ مت کرو
ابو تمہارا سرتاج ہے سب کچھ ہے
حوصلہ کرو امی جان
جس نے اتنا عرصہ پیار محبت سے خوشیاں دیں آج اگر تھوڑی سختی سے پیش آگیا تو کیا غم ہے امی جان
صبر کرو اور معاف کر دو
یہ سمجھو کہ کچھ نہیں ہوا امی جان
میٹھا کھاتے کھاتے اگر تھوڑا کڑوا بھی آگیا تو کیا پروا ماں
باپ سب کچھ سن رہا تھا سب کچھ دیکھ رہا تھا برداشت نہ ہوا بھاگ کر باہر آیا اور اپنے اسی بیٹے کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
بیوی نے شوہر سے پوچھا کہ اب بتاؤ
شوکت صاحب کو عمر کے اس حصے میں آکر احساس ہوا کہ بیوی کا فیصلہ ٹھیک تھا
جن بچوں کو اچھے مستقبل کے خوابوں کے لئے اچھے سکولوں میں اعلی تعلیم دلائی
دنیا کی ہر آسائش دی ہر خواہش پوری کی
لیکن یہ بھول گئے کہ ماں باپ کے آداب انگلش کی کتابوں میں نہیں سکھائے جاتے
ماں باپ کے حقوق سے آشناء تو قرآن و حدیث کرواتا ہے
ماں باپ سے کیسے پیش آنا ہے ان کے ساتھ کیسا رویہ اپنانا ہے یہ قرآن و حدیث بتاتا ہے
ماں باپ کے آداب صرف قرآن و حدیث سکھاتا ہے
آج شوکت صاحب کو احساس ہوا کہ جن بچوں پر لاکھوں لگا کر ڈگریاں دلائیں وہ سب جعلی نکل گئیں
اصل سرمایہ تو وہ بچہ ہے جس نے صفوں پر بیٹھ کر قال اللہ قال رسول پڑھا
دل سے ایک آہ نکلی اور سوچا کاش میں سب بچوں کو حافظ قاری عالم بنالیتا..!!

**Public Health Challenges: Addressing Malnutrition, Infectious Diseases, and Healthcare Infrastructure Deficiencies**

# **Public Health Challenges: Addressing Malnutrition, Infectious Diseases, and Healthcare Infrastructure Deficiencies** ## **Introduction**...