Friday, December 1, 2017

بڑا افسر

شوکت صاحب کا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو بیوی نے شوہر سے کہا کہ بچے کو دینی علوم پڑھاتے ہیں میرا شوق ہے بچہ حافظ عالم بنے
شوہر نے بیوی سے کہا کہ حافظ عالم بنا کر اسے بھوکا مارنا ہے
میں اسے بڑا افسر بناؤں گا تا کہ دنیا کا کامیاب انسان بن جائے
شوکت صاحب واپڈا میں اعلی عہدے پر فائز تھے
تعلیم یافتہ اور دنیاوی طور پر کامیاب ترین انسان تھے
بیوی دیندار تھی اور شوق تھا کہ بچے حافظ عالم بنیں
لیکن شوکت صاحب نہ مانے
دوسرا بیٹا پیدا ہوا بیوی نے پھر کہا کہ اس کو تو میرے شوق پر حافظ بنا لو لیکن اس بار بھی بیوی کی نہ مانی گئی
تیسرا بیٹا پیدا ہوا پھر بیوی نے اپنے شوق کا اظہار کیا لیکن مراد پوری نہ ہوئی
چوتھا بیٹا ہوا تو بیوی نے شوہر کی بہت منت سماجت کی کہ تین بچے آپ کی مرضی کی دنیاوی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس بیٹے کو میری مرضی پر حافظ بننے دو
شوکت صاحب نے بیوی کی بلآخر مان کر آخری چھوٹے بیٹے کو مدرسہ میں داخل کروا دیا
خیر وقت کا پیہ گھومتا رہا بڑے تینوں بچے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلی سرکاری عہدوں پر فائز ہوگئے
چھوٹا بیٹا حافظ قاری عالم بن گیا
ایک دن شوکت صاحب نے فخریہ انداز میں بیوی سے کہا بڑے تینوں بچے اعلی سرکاری عہدوں پر لگ گئے اچھا کما رہے ہیں
چھوٹا مولوی بن گیا وہ جہاں بھی جائے گا اس کے پورے مہینے کی تنخواہ بڑے بچوں کی ہفتے کی تنخواہ برابر ہوگی
تم نے اپنی مرضی کروا کر بڑی غلطی کی ہے
اس کا مستقبل تاریک کر دیا
بیوی نے شوہر سے کہا کل چاروں بچوں کا امتحان لیتے ہیں دیکھتے ہیں کون سا بچہ کامیاب اور کون سا ناکام ہے
دوسرے دن شام کو بچوں کے گھر آنے سے کچھ وقت پہلے ماں نے اپنا چہرہ ناخن مار کر زخمی کیا سر کے بال بکھیر کے دپٹہ پھاڑ کر چارپائی پر بیٹھ گئی
باپ اندر کمرے میں چھپ کر بیٹھ گیا
پہلا بڑا بیٹا گھر آیا ماں کو اجڑی ہوئی حالت میں دیکھ کر پوچھا تو ماں نے اس کے باپ کو تین چار گالیاں نکال کر کہا کہ اس نے مارا ہے پھر بدعائیں کرنے لگی
بیٹے نے باپ کو برا بھلا کہا اور تھکاؤٹ کا کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا
دوسرا بیٹا آیا اس نے بھی ماں کو بری حالت میں دیکھ کر وجہ پوچھی
ماں نے روتے ہوئے شوہر کو گالیاں نکال کر بدعائیں کی اور بیٹے کو بتایا کہ تمہارے باپ نے مارا ہے اور پھر بدعائیں کرنے لگی اس نے بھی باپ کو برا بھلا کہا اور اپنے کمرے کو چلا گیا
اسی طرح تیسرے بیٹے کو بھی ماں نے گھڑی ہوئی جھوٹ کی کہانی سنائی تو تیسرا بیٹا جو کہ طبیعت کا تیکھا تھا باپ کو چار گالیاں نکالی بُرا بھلا کہا اور کہا کہ گھر آنے دو بڈھے کو پتہ لگاتا ہوں
باپ سب کچھ سنتا رہا دیکھتا رہا اور خون کے آنسو روتا رہا
اسی اثناء میں چھوٹا بیٹا گھرآیا بیٹے نے ماں کو اس حالت میں دیکھا تو ایک دکھ کا جھٹکا لگا اور بھاگ کر ماں کے پاس آ کر قدموں میں بیٹھ گیا
ماں نے وہی جھوٹی گھڑی ہوئی کہانی سنائی تو بیٹے نے ماں کا ہاتھ پکڑ کر سمجھایا کہ امی جان ابو آپ کا سب کچھ ہے
باپ سے بھی زیادہ حقوق شوہر کے ہیں
اگر میرے ابو نے آپ کو کچھ کہہ دیا تو کیا ہو گیا
امی جان آپ نے ابو کو کچھ کہا ہوگا تو ہی یہ نوبت پیش آئی ہوگی
غلطی تو آپ کی بھی ہوگی امی جان
ابو نے اگر آپ کو کچھ کہہ دیا تو کیا ہو گیا
کچھ بھی نہیں ہوا امی جان دکھ مت کرو
ابو تمہارا سرتاج ہے سب کچھ ہے
حوصلہ کرو امی جان
جس نے اتنا عرصہ پیار محبت سے خوشیاں دیں آج اگر تھوڑی سختی سے پیش آگیا تو کیا غم ہے امی جان
صبر کرو اور معاف کر دو
یہ سمجھو کہ کچھ نہیں ہوا امی جان
میٹھا کھاتے کھاتے اگر تھوڑا کڑوا بھی آگیا تو کیا پروا ماں
باپ سب کچھ سن رہا تھا سب کچھ دیکھ رہا تھا برداشت نہ ہوا بھاگ کر باہر آیا اور اپنے اسی بیٹے کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
بیوی نے شوہر سے پوچھا کہ اب بتاؤ
شوکت صاحب کو عمر کے اس حصے میں آکر احساس ہوا کہ بیوی کا فیصلہ ٹھیک تھا
جن بچوں کو اچھے مستقبل کے خوابوں کے لئے اچھے سکولوں میں اعلی تعلیم دلائی
دنیا کی ہر آسائش دی ہر خواہش پوری کی
لیکن یہ بھول گئے کہ ماں باپ کے آداب انگلش کی کتابوں میں نہیں سکھائے جاتے
ماں باپ کے حقوق سے آشناء تو قرآن و حدیث کرواتا ہے
ماں باپ سے کیسے پیش آنا ہے ان کے ساتھ کیسا رویہ اپنانا ہے یہ قرآن و حدیث بتاتا ہے
ماں باپ کے آداب صرف قرآن و حدیث سکھاتا ہے
آج شوکت صاحب کو احساس ہوا کہ جن بچوں پر لاکھوں لگا کر ڈگریاں دلائیں وہ سب جعلی نکل گئیں
اصل سرمایہ تو وہ بچہ ہے جس نے صفوں پر بیٹھ کر قال اللہ قال رسول پڑھا
دل سے ایک آہ نکلی اور سوچا کاش میں سب بچوں کو حافظ قاری عالم بنالیتا..!!

No comments:

Post a Comment

**Public Health Challenges: Addressing Malnutrition, Infectious Diseases, and Healthcare Infrastructure Deficiencies**

# **Public Health Challenges: Addressing Malnutrition, Infectious Diseases, and Healthcare Infrastructure Deficiencies** ## **Introduction**...